Orhan

Add To collaction

محبت ہو گئی ہے

محبت ہو گئی ہے 
از قلم اسریٰ رحمٰن
قسط نمبر7

شادی کا ہنگامہ ختم ہونے کے بعد سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے. وہ بھی اب نازیہ بیگم کے ساتھ گھومنے شاپنگ کرنے چلی جاتی تھی اور ان سب کے ساتھ تھوڑا بہت فری بھی ہو گئ تھی. اتنے دنوں میں اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ سب اتنے برے نہیں ہیں جتنا لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں بس لاابالی قسم کے تھے. اسد بھی اب گھر میں زیادہ رہنے لگا تھا. وہ بھی ان سب کی شرارتوں میں حصہ لینے لگا تھا...
آج صبح سے موسم بہت خوبصورت تھا ... ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی صبح سے لگی ہوئی تھی... صائم اور دائم یونیورسٹی سے جلدی آگئے تھے جبکہ احد موسم کو انجوائے کرنے کے لئے اسد سے گالیاں سننے کے باوجود بھی آفس نہیں گیا تھا جبکہ فہد تھوڑی دیر آفس میں اپنی شکل دکھاکر اسد سے نظریں بچاتا بھاگ آیا تھا... اب وہ چاروں کچن میں بیٹھے اس کا سر کھا رہے تھے جبکہ وہ پکوڑے پکانے کے ساتھ ساتھ ان کی بکواس بھی سن رہی تھی...
تمہیں کچن سے بہت محبت ہے.." فہد منہ میں رکھتا ہوا بولا۔۔
"بالکل نہیں.."
"جب محبت نہیں ہے تو میڈم اتنا کچھ بناتی ہیں..  اگر محبت ہوتی تو یہ کیا ہوتی.."
"ماسٹر شیف آف انڈیا.." احد کی ادھوری بات پر صائم اچک کر بولا اور داد طلب نظروں سے ان سب کی طرف دیکھا جو اسے ہلکا ہونے کا اشارہ کرکے دوبارہ پکوڑوں کے ساتھ انصاف کرنے لگے تھے..
"امی کا بس چلے تو کچن کو ہی میرا کمرہ مقرر کر دیں وہ بھابھیاں ہیں جو انہیں اس کام سے ابھی تک باز رکھا ہے.." اس نے مسکراتے ہوئے پکوڑے پلیٹ میں رکھ کر چولی بند کر دی..
" میں یہ پکوڑے چچی اور چاچو کو دے کر آتی ہوں.. " وہ پلیٹ اٹھاتی ہوئی بولی...
" تم رہنے دو رضیہ ہے نا وہ لے جاۓگی.. تم ہمارے ساتھ چلو کرکٹ کھیلنے.." فہد پلیٹ اس کے ہاتھ سے لے کر رضیہ کو آواز دینے لگا..
" اور وہ آپ لوگوں کے باس آگئے تو.." رضیہ کے جانے کے بعد وہ کچن سے نکلتی ہوئی بولی باقی سب بھی اس کے ساتھ ہی باہر نکلے..
"اسد بھائی کے آنے سے کیا ہوگا.."
"تم اسد سے ڈرتی ہو.." احد اس کے چہرے کو غور سے دیکھتا ہوا بولا...
" نن.. نہیں تو.. مم.. میں کیوں ڈرنے لگی ان سے.." اس کے ہکلانے پر نہ جانے کیوں وہ ہلاکر مسکرا دیا...
"اچھا چلو کرکٹ کھیلتے ہیں.. دیکھو نا یار موسم بھی کتنا امیزنگ ہے... مزا آ جائے گا..." فہد نے اسے راضی کرنے کی دوبارہ کوشش کی..
"پر..."
"جب اسد آئیگا تب دیکھا جائے گا۔۔" احد اس کی بات اچک کر جلدی سے بولا تو وہ راضی ہو گئی اور ان کے ساتھ گارڈن میں آگئی جہاں کا منظر کرکٹ گراؤنڈ جیسا ہی تھا.. دونوں سائیڈ پر اسٹمپس لگے ہوئے تھے اور بیچ میں کارپٹ بچھاکر پچ بنائی گئی تھی.. بس امپائر اور پبلک کی کمی تھی....
" امپائر کون ہوگا.." اس کے پوچھنے پر سب نے ایک ساتھ اسے دیکھا..
" میں امپائرنگ نہیں کرنے والی.. مجھے امپائرنگ نہیں آتی.." وہ ان کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر جلدی سے بولی...
"اچھا ٹھیک ہے ہم خود ہی ڈیسیزن لے لیں گے.. چلو ٹیم بناتے ہیں.." پھر دو ٹیم بنی احد اور فہد ایک ٹیم میں تھے جبکہ عفیرہ صائم اور دائم کے ساتھ... ٹاس کے بعد صائم نے بالنگ لی اور احد اور فہد پچ پر پوری تیاری کے ساتھ بیٹنگ کے لئے آگئے..  فہد یونیورسٹی کا بیسٹ بیٹسمین تھا.. احد کے ساتھ مل کر اس نے جم کر ان تینوں کی دھنائی کی... تین اوورز کی پاری میں ان دونوں نے بنا آؤٹ ہوئے چالیس رن ٹھوک کر ایک مشکل ترین ٹارگٹ دے دیا ان لوگوں کو... صائم کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ٹارگٹ کافی ٹف ہے ان کے لئے... دوسری پاری کا آغاز ہوا.. صائم اور دائم پورے جوش کے ساتھ پچ پر اترے اور میچ کا آغاز ہوا.. ان دونوں نے پاری کی شروعات کافی سنبھل کر اور دھیرے کی... پہلے اوور میں ان کے صرف چھ رن بنے.. دوسرے اوور میں  دائم نے لگاتار دو چوکے مارے اور تیسری شاٹ مارنے کے چکر میں وہ بولڈ ہو گیا... اب سارا بوجھ صائم پر آگیا تھا... عفیرہ بیٹنگ پر اتری احد نے اسے آؤٹ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بہت سنبھل کر کھیل رہی تھی... ابھی تیسرا اوور شروع ہونے والا تھا کہ اسد کی گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی.. اسے دیکھتے ہی فہد کے طوطے اڑ گئے جبکہ عفیرہ پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی تھی لیکن مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق مجبوراً وہیں کھڑی رہی...
" جناب اتنی اہم میٹنگ چھوڑ کر یہاں میچ کھیل رہے.." وہ آتے کے ساتھ ہی فہد پر چڑھ دوڑا تھا..
 " وہ.. وہ میری طبیعت ذرا خراب تھی.. مینیجر سر کو انفارم کرکے آیا تھا.."
" طبیعت اپ ڈاؤن تھی تو میچ کھیلا جا رہا ہے اگر صحیح ہوتی تو کیا کیا جاتا.." وہ غصے سے بولا تو وہ بدک کر احد کے پیچھے چھپ گیا...
" اچھا یار اب جانے بھی دو... چلو کرکٹ کھیلتے ہیں... کافی دن ہو گئے ہیں ہمیں ایک ساتھ کرکٹ کھیلے.. تم فریش ہو کر جلدی سے آؤ تو ہم کھیلتے ہیں.." احد نے اسے ٹھنڈا کرتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلاتا اندر کی طرف بڑھ گیا.. اسد اور احد میں صرف ڈیڑھ سال کا فرق تھا یہی وجہ تھی کہ ان دونوں کی آپس میں بہت بنتی تھی.. وہ دونوں بھائی سے زیادہ بیسٹ فرینڈ تھے.. ایک دوسرے کو بہت اچھے سے جانتے تھے...
" تو کہاں تک پہنچا میچ.." وہ گراؤنڈ میں داخل ہوتا ہوا بولا..
" زمین میں دراڑ آگئی ہے اس جڑ سے اکھاڑنا باقی ہے.." فہد کے کہنے پر اس نے دوسری ٹیم کی طرف دیکھا... 
" تمہیں کرکٹ کھیلنا آتا ہے.." بیٹ تھامے کھڑی عفیرہ کو دیکھ کر وہ بولا تو اس نے جلدی سے اثبات میں سر ہلا دیا..
" دیکھتے ہیں... لاؤ بال دو میں بالنگ کروں گا.." 
"یہ فاؤل ہے۔۔ میچ کے بیچ میں آپ کیسے شامل ہو سکتے.." صائم اسے بال پکڑتے دیکھ زوردار احتجاج کیا..
"کیسا فاؤل... ایکسٹرا پلئیر کا نام نہیں سنا کیا.. اور ویسے بھی تم تین ہو اور ہم دو.. ہمارے پاس ایک پلئیر کا آپشن ہے" احد اس کے احتجاج کو کسی بھی خاطے میں نہ لاتے ہوئے بولا... گیم کی شروعات ہوئی اسٹرائیک صائم کے ہاتھ میں تھی جبکہ نان اسٹرائیک پر عفیرہ تھی.. اسد نے پہلی بال پھینکی جس کو صائم نے آرام ہٹ کیا اور دو لے کر دوبارہ اسٹرائیک پر آگیا.. اس کی کوشش تھی کہ اسٹرائیک اس کے ہی ہاتھ میں رہے.. اور عفیرہ بھی یہی چاہتی تھی.. اسد اس کی چالاکی بخوبی سمجھ گیا تھا.. وہ عفیرہ کو اسٹرائیک پر لانا چاہتا تھا.. اس کا کھیلنے کا انداز دیکھنا چاہتا تھا.. اس نے دوسری بال تھڑی دھیمی پھینکی جس پر چاہتے ہوۓ بھی صائم دو رن نہ لے سکا.. اب اسٹرائیک عفیرہ کے ہاتھ میں تھی.. بیٹ تھامے اسٹرائیک پر کھڑی وہ اپنی دھڑکن کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی تھی جو کہ بال اچھالتے اسد کو دیکھ کر بڑھتی ہی جا رہی تھی... 
" ایک منٹ.." جیسے ہی اسد بال ڈالنے والا تھا وہ جلدی سے بولی..
" کیا ہوا.." وہ سب ہکا بکا ہوکر اسے دیکھنے لگے...
" میں.. میں ذرا دوپٹہ بنا لوں.." یہ کہتی وہ ڈھیلے پڑ گئے اپنے دوپٹے کو دوبارہ سے نماز کے انداز میں باندھنے لگی.. اسد اس کے انداز کو بہت غور اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا..
" چلیں.." اسد کے پوچھنے پر وہ سر ہلا کر بیٹ کی پوزیشن بنانے لگی... اسد کی طرف سے اسے پہلی بال ڈالی گئی جسے ڈر کے مارے اس نے خالی جانے دیا۔۔ اسکور بورڈ پر ان کا اسکور چوبیس پر ایک تھا.. اور صرف تین بال باقی تھی.. ایک ناممکن ٹارگٹ تھا.. اور سامنے موجود شخص اسے کسی بھی حال میں اسٹرائیک سے ہٹنے نہیں دینا چاہتا تھا..... اس نے مسکرا کر اسے دیکھا اور چوتھی بال ڈال دی... عفیرہ نے بیٹ کو مضبوطی سے پکڑا...اور ہوا میں لہرا کر بال کو زور سے ہٹ کیا... اور... اور... اور یہ کیا..؟؟
 کرکٹ کی ہسٹری میں بھی کسی پلئیر نے اتنااااااا زوردار شاٹ نہیں مارا م ہوگا جتنا زووووررردااارررر شاٹ عفیرہ نے مارا تھا... سب اپنی اپنی جگہ حیرت سے کھڑے اس طرف دیکھ رہے تھے جس طرف شاٹ ماری گئی تھی... عفیرہ بھی دنگ سی منہ پر ہاتھ رکھے اسی طرف دیکھ رہی تھی... اسد کبھی اسے اور کبھی شاٹ والی جگہ کو دیکھ رہا تھا...
ذرا ریوائنڈ کریں اور شاٹ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں..
اسد نے جوں ہی بال عفیرہ کو ڈالی عفیرہ نے بیٹ کو مضبوطی سے پکڑ کر بال کو زوردار ہٹ ماری جس سے بال اونچائی سے ہوا میں لہراتی ہوئی گیٹ کے باہر چلی گئی ساتھ ہی ساتھ... ذرا غور فرمائیں... ساتھ ہی ساتھ بیٹ بھی عفیرہ کے ہاتھ سے سلپ ہوکر ' جہاں تم وہاں میں' کی مصداق بال کے ساتھ لہراتا ہوا باہر کی سیر کرنے چلا گیا...
" دھونی کی ہیلی کاپٹر شاٹ تو دیکھی تھی آج عفیرہ کی ' فلائینگ بیٹ شاٹ' بھی دیکھ لی.... واہ کیا شاٹ ہے.. میں تو تمہاری بیٹنگ کا دیوانہ ہو گیا.." احد کے شرارتی انداز میں کہنے پر سب قہقہہ لگا کر ہنس دئیے جبکہ وہ شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی وہاں سے بھاگنے کی جگہ ڈھونڈ رہی تھی...
"اور اسی کے ساتھ مس عفیرہ کو مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا جاتا ہے اتنی بہترین اور عمدہ شاٹ کا ایجاد کرنے کے لئے.." اسد ہنستا ہوا اس کا بایاں ہاتھ اٹھا کر ہوا میں لہراتا ہوا بولا تو وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر منہ چھپاتی جلدی سے اندر کی طرف بھاگی... 
" کہاں بھاگ رہی ہو باہر سے بیٹ اور بال کون لاۓ گا.." فہد نے ہنستے ہوئے پیچھے سے ہانک لگائی تو سب زوردار انداز میں قہقہہ لگا کر ہنس دئیے...
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
" آہا.. مہندی لگائی جا رہی ہے.." اسد صوفے پر اس کے پاس دھپ سے بیٹھتا ہوا بولا تو وہ اسے دیکھ مسکراتے ہوئے سر پر موجود دوپٹے کو دوبارہ بنانے لگی.. اسد نے اسے بخوبی نوٹ کیا..
" کافی خوبصورت لگائی ہے.." وہ غور سے اس کے ہاتھ پر بنے ڈیزائن کو دیکھتا ہوا بولا..
" مام کو بھی لگا دیتیں.."
" انہیں الرجی ہے مہندی سے ورنہ میں انہیں ہی پہلے لگاتی.."
" کس نے کہا مام کو الرجی ہے.." اس نے الجھ کر نازیہ بیگم کو دیکھا جو دوسرے صوفے پر بیٹھیں ٹی وی کوئی پاکستانی ڈرامہ دیکھنے میں بری طرح بزی تھیں.. اس کے کہنے پر انہوں نے گڑبڑا کر ان دونوں کو دیکھا.. دونوں کی آنکھوں میں حیرت تھی..
"چچی سے میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ انہیں مہندی سے الرجی ہے.." اس نے الجھ کر جواب دیا..
 " آپ کو کب سے الرجی ہو گئی مام..؟"
" تم بھی نا کیا بات لے کر بیٹھ گئے ہو اسد.. اب کیا اس عمر میں مہندی لگواتی بھلا میں اچھی لگتی.."
" کیوں آپ کی عمر کو کیا ہوا ہے ماشاءاللہ کافی ینگ ہیں آپ.. کیوں عفیرہ.." اس نے کہتے ہوئے عفیرہ کی طرف دیکھا..
 " بالکل.. مہندی لگانے کی بھی کوئی عمر متعین ہے کیا.. میری ایک رشتے کی دادی تھیں ان کے سارے دانت گر چکے تھے پھر بھی انہیں مہندی لگانے کا اتنا شوق تھا کہ مہندی کا رنگ ہلکا ہوتے ہی وہ دوبارہ لگا لیتی تھیں.." 
" اچھا تو تم انہیں پر گئی ہو.." 
" بالکل نہیں..  میرے تو ابھی تک ایک بھی دانت نہیں گرے.." اس کے کہنے کے انداز پر وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا تو وہ شرما کر سر جھکا گئی.. دور بیٹھیں نازیہ بیگم ان دونوں کو پاس بیٹھے دیکھ کر ستائشی انداز میں مسکرا رہی تھیں...
" اچھا تو تمہارا مطلب جب گریں گے تب تم ان کے جیسی ہو جاؤ گی.."
" اب میرا مطلب یہ بھی نہیں تھا.." وہ جلدی کہتی اٹھ کر نازیہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گئی.۔ تو وہ دوبارہ ہنسنے لگا..
"لائیے چچی میں آپ کو لگاتی ہوں مہندی.." 
" ارے نہیں بیٹا تم اس کی بات پر مت اؤ.. اس کی تو عادت ہے پریشان کرنے کی.." 
"اس میں پریشانی سی کیا بات ہے.. ابھی لگ جائے گی بس کچھ ہی منٹوں میں.." وہ ان کا ہاتھ زبردستی پکڑتے ہوئے بولی..
" لگوا لیں مام.. لوگ کبھی کبھی ہی اتنا مہربان ہوتے ہیں.." اس کے کہنے پر عفیرہ نے گھور کر اسے دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر مسکرا دیا..
"اچھا جب تم ان جھمیلوں سے فارغ ہو جانا تو ایک کپ کافی بنا کر ٹیرس پر لے آنا.." تھوڑی دیر گہری نظروں سے اسے دیکھنے کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا اس سے بولا..
" رضیہ سے کیوں نہیں کہہ دیتے.. وہ بنا دے گی.." نازیہ بیگم نے اسے اٹھتا ہوا دیکھ کر کہا..
" پلیز مام.. کیا آپ چاہتی ہیں کہ مجھے کافی سے نفرت ہو جائے.. رضیہ بہت ہی بکواس کافی بناتی ہے سیریسلی.." وہ منہ بناتا ہوا بولا..
" اور ویسے بھی جب گھر میں اتنا اچھا شیف موجود ہے تو اس سے فائدہ اٹھانے کا حق تو بنتا ہی ہے.." اس کے کہنے پر نازیہ بیگم نے کچھ اس انداز سے سر ہلایا جیسے انہیں ساری باتیں سمجھ میں آرہی ہیں.. 
" میں انتظار کروں گا.. اوکے.." وہ اس کی طرف دیکھ کر بولتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا... نازیہ بیگم نے اپنے اس موڈی بیٹے کے اچانک انداز بدلنے پر بہت غور کیا.. اس کی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں.. اور وہ بہت کچھ انہیں بخوبی سمجھ میں آرہا تھا.. انہیں اندازہ ہو رہا تھا کہ اب انہیں کیا کرنا ہے... وہ کچھ سوچ کر دھیرے سے مسکرا دیں....
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
ایک دن وہ اپنا وارڈروب بنا رہی تھی کہ اسد اس کے کمرے میں داخل ہوا.
" بڑے پاپا کا فون ہے." اس نے فون اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا.
"کیا... ابو کا فون آیا ہے..ہاۓ اللہ.!"اس نے خوشی کے مارے فون اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا..
"ہیلو ابو.. اسلام وعلیکم.. آپ کو اتنے دنوں بعد اپنی بیٹی کی یاد آئی.. مجھے یہاں اتنی دور بھیج کر آپ لوگوں کو تو بہت مزا آ رہا ہوگا. بہت خوش ہو رہے ہوں گے سب لوگ.امی کو تو بس موقع چاہیے تھا مجھے خود سے دور کرنے کا.. بہت تنگ کرتی تھی نا میں انہیں.." وہ نا‌ن اسٹاپ شروع ہو گئی تھی اور اسد کھڑا ہکا بکا اسے باتیں کرتا دیکھ رہا تھا جو اس کی موجودگی کو بھولے پورے کمرے میں ٹہل ٹہل کر اپنے ابو کو سنا رہی تھی... وہ اسے ایسی ہی باتیں کرتا چھوڑ کر کمرے سے باہر آ گیا...
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
رات کو کھانے پر اس نے ابو کے فون کا سب کو بتایا...
"چاچو ابو کہہ رہے تھے کہ وہ آنے والے ہیں.." وہ خوشی خوشی جمشید صاحب کو بتا رہی تھی...
"ارے واہ.. یہ تو بہت اچھی خبر سنائی ہے تم نے. مجھے تو بہت خوشی ہوگی کہ بھائی صاحب میرے گھر آئیں گے.. کیوں نازیہ بیگم..؟"
 "جی.. آپ نے بالکل ٹھیک کہا.. میں بھی اپنے سسرالی رشتے داروں سے ملنے کی بہت خواہش مند تھی..." وہ دونوں ان کی آمد کا سن کر بہت خوش ہوئے تھے...  ان تینوں کو خوش دیکھ کر وہ پانچوں بھی ان کی خوشی میں شامل ہو گئے....
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
کل رات اسے اسد نے بتایا تھا کہ جنید صاحب اور فردوس بیگم کل صبح یہاں پہنچ جائیں گے. اسی لئے وہ اور جمشید صاحب صبح ہی صبح انہیں لینے کے لئے نکل گئے تھے.تب سے وہ خوشی کے مارے پورے گھر میں ٹہلتی پھر رہی تھی.
"ڈئیر سسٹر بہت پریڈ کر لی. اب چپ کرکے بیٹھ جاؤ. تمہارے اس طرح پریڈ کرنے سے وہ لوگ جلدی نہیں آجائیں گے." احد نے اسے ٹہلتا دیکھتے ہوئے کہا تو وہ تھک کر صوفے پر بیٹھ گئی.
"ویسے کون کون آرہا ہے."  صائم نے ٹی وی دیکھتے ہوئے پوچھا.
"پتا نہیں."
"صرف تایا تائی آرہے ہیں یا بھائی وغیرہ بھی.؟" احد نے فائل بند کرتے ہوئے پوچھا.
"اسد بھائی نے تو یہی بتایا تھا کہ امی ابو آرہے ہیں."
"اچھاااااا اسد بھائی." فہد نے لمبی سانس کھینچ کر کہا.
"ویسے یہ اسد بھائی ہیں بڑے برے." دائم نے منھ بناکر کہا.
" وہ کیوں..؟" احد جو پاپ کارن کھا رہا تھا بھنویں سکوڑ کر اسے دیکھنے لگا.
"نہیں بس ایسے ہی."
"نہیں تم بتاؤ تو کیوں.." احد جرح کے موڈ میں تھا. اس سے پہلے کہ ان چاروں میں لڑائی شروع ہوتی گاڑی کا ہارن سنائی دینے پر وہ سب گیٹ کی طرف دوڑ پڑے( احد اپنے پاپ کارن کے ساتھ) سب سے آگے عفیرہ تھی.
"اسلام وعلیکم ابو." وہ سلام کرتے ہوئے ان بانہوں میں جھول گئی تو وہ سب مسکرا دئیے.
"وعلیکم السلام میری گڑیا کیسی ہے."
"بالکل ٹھیک ." وہ ان کے سینے میں چہرہ چھپا گئی.
"بھائی صاحب یہ رہے آپ کے نالائق بچے." جمشید صاحب نے ان پانچوں کی طرف اشارہ کیا.
"لیجئے تایا جان اب ہم نالائق کیسے ہو گۓ." فہد نے معصوم سی شکل بناکر کہا تو وہ سب ہنس دئیے.
"چلئے اندر چلتے ہیں." نازیہ بیگم کے کہنے پر سب اندر کی طرف چل پڑے. اندر آکر اسد ملازموں کو سامان رکھنے کا کہہ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا.
" تم کہاں جا رہے ہو اسد."
" ڈیڈ میں فریش ہو کر آرہا ہوں."
ملازمہ کے ناشتہ ھقسرو کرنے کے بعد سب باتوں میں مگن ہو گۓ. عفیرہ اپنے امی ابو کے بیچ بیٹھی بہت خوش تھی. اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کے امی ابو ممبئ آۓ تھے اپنے وعدے کے مطابق اسے واپس لے جانے کے لئے. ان کا دن بہت خوشگوار گزر رہا تھا ان دنوں. اسد بھی آفس سے چھٹی کرکے ان سب کے ساتھ ٹائم اسپینڈ کر رہا تھا. وہ پانچوں اپنے تایا تائی کی محبت پاکر بہت خوش تھے.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
قریب دو ہفتے بعد جنید صاحب نے واپسی کا ارادہ کیا عفیرہ کے ساتھ. یہ سن کر وہ سب ہڑبڑا کر رہ گئے.
"کیا..؟ تم جا رہی ہو..؟" احد کی 'کیا' کسی چیخ سے کم نہیں تھی.
" ہاں.. تو کیا میں یہاں ہمیشہ رہوں گی!" اس نے معصومیت سے کہا.
" یار ابھی تو مت جاؤ." امفہد نے التجا کی.
" نہیں مجھے اپنے بھائی بھابھی کی بہت یاد آ رہی ہے."
" تو کیا ہم نے تمہیں یہاں قید کر رکھا ہے..؟" صائم نے گھور کر کہا.
" مانا کہ ہم تھوڑے فلرٹی ہیں. لیکن یار وہ سب صرف وقتی تھا. اب ہم بدل گۓ ہیں. ہماری فیلنگ تمہارے لئے الگ ہے. ہمیں بچپن سے ایک بہن کی تمنا تھی جو تم نے پوری کر دی. وی رئیلی لائک یو عفیرہ." فہد نے جزباتی ہوکر کہا تو وہ مسکرا دی.
"میں جانتی ہوں آپ لوگ برے نہیں ہیں. آپ لوگ تو بہت اچھے ہیں. میں آپ لوگوں کو بہت پسند کرتی ہوں. مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ میرے کزنز بھی ہیں. میں آپ لوگوں کے کسی بھی روئیے کا برا نہیں مانا." اس نے خوشدلی سے کہا.
" تم سچ بول رہی ہو نا.." دائم نے بے یقینی سے کہا.
"جھوٹ بولے کوا کاٹے" اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ وہ چاروں ہنس دئیے.
"آپ لوگ گھبرائیے مت میں بالکل سچ کہہ رہی ہوں."
"لو بھلا ہم کیوں گھبرانے لگے." صائم نے منھ بناکر کہا.
" لیکن تمہیں ایک وعدہ کرنا ہوگا."
"کیسا وعدہ..؟"
 "یہی کہ ہم جب تمہیں بلائیں گے تمہیں آنا ہوگا."
"بھلے سے آپ لوگ میرے جانے کے دو دن بعد ہی مجھے بلانے چلے آئیں." اس نے ہاتھ نچاکر کہا.
"ہاں تو اور نہیں تو کیا." دائم نے اکڑ کر کہا
" اس سے اچھا ہے کہ میں جاتی ہی نہیں." وہ صوفے میں دھنستی ہوئی بولی.
"ہائیں سچی ." وہ چاروں حیران ہو کر یک زبان بولے.
"نہیں وہ تو میں بس مزاق کر رہی تھی."اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تو وہ سب مایوس ہوکر بیٹھ گئے. پھر وہ ملازمہ کے کہنے پر مسکراتے ہوئے نازیہ بیگم کے کمرے کی طرف چل پڑی.
" جی چاچی آپ نے مجھے بلایا."
" ہاں بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی"
" جی کہئے کیا بات کرنی ہے." وہ ان کے اشارہ کرنے پر ان کے پاس بیڈ پر  جاکر بیٹھ گئی.
" عفیرہ بیٹا تمہاری نظر میں کوئی اچھی سی لڑکی ہے اپنے احد کے لئے تو بتاؤ. میں اس کے لئے کوئی اچھی لڑکی کی تلاش میں تھی تو سوچا تم سے ہی کیوں نہ پوچھ لوں."
"تو کیا آپ نے اسد بھائی کے لئے لڑکی ڈھونڈ لی..؟" اس نے حیران ہو کر پوچھا.
" ہاں وہ تو میں نے بہت پہلے ہی ڈھونڈ لی تھی." ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی.
" مجھے نہیں بتایا." اس نے شکوہ کیا.
" تمہیں وقت آنے پر بتا دوں گی پہلے تم احد کے لئے لڑکی ڈھونڈنے میں میری مدد کرو." ان کا انداز ٹالنے والا تھا.
" ہاں ہے تو لیکن ان کا اسٹیٹس آپ لوگوں سے تھوڑا کم ہے."اس نے تھوڑا توقف سے کہا.
" مجھے اسٹیٹس کی کوئی فکر نہیں.بس مجھے ایک ایسی لڑکی کی چاہت ہے جو میرے گھر میں خوشیاں لاۓ. میرے گھر کو اپنا گھر سمجھ کر رہے.تم مجھے بتاؤ اس کے بارے میں." ان کے صاف لہجے میں کہہ دینے پر اس نے اپنی سب سے پیاری دوست ثنا کے بارے میں انہیں بتایا.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج اس کا یہاں آخری دن تھا. شام کی گاڑی سے وہ امی ابو کے ساتھ جانے والی تھی. صبح سے ان چاروں نے باری باری آکر گفٹ دئیے. سواۓ اسد کے. وہ صبح سے نہ جانے کہاں غائب تھا. وہ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنا سامان پیک کر رہی تھی کہ دروازہ ناک ہونے کی آواز آئی. اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اسد کو پاکر حیران ہوئی.
" ہاۓ..! مے آئی..؟" اس نے کھنکھار کے اندر آنے کی اجازت مانگی تو وہ سٹپٹا کر سامنے سے ہٹ گئ.
"تو فائنلی تم جا رہی ہو." دونوں ہاتھ پشت میں کیۓ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا. اس نے سر اثبات میں ہلا دیا.
"ایکچوئلی میں تمہارے روم میں... ایکچوئلی سب نے تمہیں گفٹس دئیے تو میرا بھی فرض بنتا تھا کہ میں بھی دوں.. سو یہ رہا میری طرف سے تمہارے لئے ایک معمولی سا گفٹ.. امید ہے پسند آجائے.." اس نے خوبصورتی سے پیک کیا ایک چھوٹا سا باکس اس کی طرف بڑھایا.
"نہیں اس کی ضرورت نہیں." اس نے جلدی سے کہا
"تو کیا تم نے سب سے یہی کہہ کر گفٹ واپس کر دیا..؟"
"نن.. نہیں.." اس نے گڑبڑا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ شرارت سے مسکرا رہا تھا.
"پلیز یار لے لو. ویسے بھی جتنے دنوں تک تم یہاں رہی میں نے تمہارے ساتھ ایسا کچھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جس سے تم مجھے یاد رکھو. شاید میرا یہ گفٹ تمہارے ذہن و دل میں میری یاد تازہ رکھے.. پلیز.. میں نے اتنی ریکوئسٹ کبھی کسی سے نہیں کی. تم لکی ہو.." اس کے اتنا فورس کرنے پر اس نے گفٹ لے لیا.
"تھینکس سوئیٹی " وہ مسکراتا ہوا دروازے کی طرف بڑھ گیا. اس کے جاتے ہی اس نے گفٹ کھولا تو اس میں ایک خوبصورت سا پینڈینٹ تھا جس کے ڈیزائن کے بیچ میں خوبصورت سا A لکھا ہوا تھا. اب یہ گفٹ اس نے اپنی نشانی کے طور پر دیا تھا اس کے نام کے مطابق.. یہ معلوم کرنا مشکل تھا کیونکہ اتفاق سے دونوں کا نام A سے شروع ہوتا تھا.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج عفیرہ کو گۓ ایک ہفتہ ہو چکا تھا. گھر میں سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا. سب اپنی پرانی روٹین پر واپس آگئے تھے. سب میں بدلاؤ ہوا تھا یا نہیں لیکن اسد کی روٹین میں کافی بدلاؤ آگیا تھا. وہ اب گھر میں زیادہ وقت گزارنے لگا تھا. لڑکیوں کے ساتھ گھومنا پھرنا ہوٹلنگ وغیرہ بند کر دیا تھا. آفس کے کام میں زیادہ بزی رہنے لگا تھا.لیکن گھر میں کسی نے اس کے بدلاؤوں کا نوٹس نہیں لیا.
اب اس کی خود کی سوچ بدلنے لگی تھی. اس کے دل و دماغ پر عفیرہ پوری طرح سے حاوی ہو گئی تھی. وہ اس سے پیچھا چھڑانے کی بہت کوشش کرتا لیکن آخر میں ناکامیاب ہوکر پھر اسے سوچنے لگتا.وہ اب اس کے ذکر سے بچنے لگا تھا. وہ روز فون کرتی سب سے باتیں کرتی لیکن اس نے کبھی اس سے بات نہیں کی اور نہ ہی کوشش کی. وہ خود کو اس کے آگے لاچار محسوس کرتا. جو بھی تھا لیکن یہ بدلاؤ اس کے لئے عجیب ترین تھا.
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
آج وہ وقت سے پہلے آگیا تھا اور کھانا کھاکر اپنے روم میں گیا ہی تھا کہ نازیہ بیگم اس کے روم میں داخل ہوئیں.
"مام آپ اس وقت میرے کمرے میں..؟ خیریت..؟؟"
"خیریت ہی خیریت ہے.. بس مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی."وہ اس کے پاس آکر بیٹھیں تو وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا.
"میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں اسد.." انہوں نے اس کے بال میں انگلیاں پھیرتے ہوئے تمہید باندھی.
"جی پوچھئے کیا پوچھنا چاہتی ہیں."اس کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پر مسکراہٹ تھی. انہوں نے نظر بھر کے اسے دیکھا.
"تم کسی لڑکی کو پسند کرتے ہو..؟" اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے انہیں دیکھنے لگا.
"کیوں.. آپ ایسا کیوں پوچھ رہی ہیں." وہ دھیرے سے اٹھ بیٹھا.
"کیوں کہ میں تمہاری شادی کرنا چاہتی ہوں." 
"آپ نے لڑکی ڈھونڈ لی..؟" وہ ان کے چہرے سے نظریں ہٹا کر بولا.
"ہاں ڈھونڈ بھی لی اور اسے فائینل بھی کر دیا.بس تمہاری ہاں کا انتظار ہے. اور مجھے یقین ہے تمہیں بھی وہ پسند آئے گی." ان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی.
"مام آپ نے ہمیشہ میری ہر خواہش پوری کی ہے تو کیا میرا فرض نہیں بنتا کہ میں بھی آپ کی خواہش پوری کروں. آپ نے جیسی بھی لڑکی میرے لئے پسند کی ہے مجھے وہ پسند ہے. میں آپ کے ہر فیصلے پر راضی ہوں. گھبرائیے مت..آفٹر آل یو آر مائی سویٹ مام. تو کیا میں آپ کی اتنی سی خواہش پوری نہیں کر سکتا."اس نے مسکرا کر انہیں خود سے لگایا تو وہ بھی کھل اٹھیں.
"مجھے پورا یقین تھا کہ میرا بیٹا میری بات کو رد نہیں کرے گا..اچھا میں چلتی ہوں اب تم آرام کرو بہت تھک گئے ہوگے." انہوں نے اس کی پیشانی پر بوسہ لیتے ہوئے کہا اور دروازے کی طرف بڑھ گئیں تو بھی تھکا ہوا سونے کی تیاری کرنے لگا.

   1
0 Comments